حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ

  • Admin
  • Jan 04, 2022

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

نحمدہ ونصلی علٰی رسولہ الکریم

حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ

پروفیسر ڈاکٹر بشیر احمد صدیقی،سابق صدر شعبہ علوم اسلامیہ پنجاب یونیورسٹی لاہور

امام ربانی ،مجدد الف ثانی ،شیخ احمد سرہندی رحمۃ اللہ علیہ کے حضور میں علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے خراج تحسین پیش کرتے ہوئے فرمایا:

وہ ہند میں سرمایہء ملت کا نگہبان

اللہ نے بروقت کیا جس کو خبردار

علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ نے اس ایک شعر میں عہد اکبری اور عہد جہانگیری کی پوری تاریخ کو اجمالی طور پر سمو دیا ہے اور اس اضطراب و انتشار اور خطرات و حوادث  کی طرف لطیف اشارہ کیا ہے جو اس وقت ملت اسلامیہ کو درپیش تھے اور جس کے نتیجے میں سرمایہ ملت  اس قدر غیر محفوظ ہوگیا تھا کہ رحمت خداوندی جوش میں آئی اور شیخ احمد سرہندی رحمۃ اللہ علیہ جیسی شخصیت  ابھری جس نے سرمایہ ملت کی نگہبانی کا واقعی حق ادا کیا اور جسے سب سے پہلے علامہ عبدالحکیم سیالکوٹی رحمتہ اللہ علیہ نے'' مجدد الف ثانی ''رحمۃ اللہ علیہ کا لقب دیا  اور آج پوری دنیا انہیں ''مجدد الف ثانی'' رحمتہ اللہ علیہ کے نام سے یاد کرتی ہے۔آج کی اس مجلس میں میری گزارشات کا مقصد اولا اس امر کا جائزہ پیش کرنا ہے  سرمایہ ملت کس حد تک غیر محفوظ ہوگیا تھا اور ثانیًا یہ کہ  آپ رحمتہ اللہ علیہ نے اس کی نگہبانی کا فریضہ کس طرح ادا فرمایا۔  اس بات سے یہ بات بھی واضح طور پر سامنے آ جائے گی کہ آپ رحمتہ اللہ علیہ کو مجدد عقیدت کی بناء پر کہا جاتا ہے یا حقیقت کی بناء پر۔انسائیکلوپیڈیا آف اسلام میں اکبر کے متعلق لکھا ہے:

“It is well known that he broke away from Orthodox Islam’’

اسلام سے رشتہ توڑنے پر جس سے جوڑا ہے اس کے متعلق لکھا ہے :

“He recommended for this the Sun or its earthly counter here”

ایک اور مستشرق گیرٹ نے عہد اکبری کی ایک کتاب"مغل رُولز اِن انڈیا" کے صفحہ نمبر 80 پر جو تصویر پیش کی ہے حسبِ ذیل ہے:

“The study of Arabic was discouraged. The Practice of shaving the beared was introduced. The Muslim era changed for a solar year. The customs of prostration before the king was also introduced to the disgust of Orthodox muslims. No new Mosques were built and the old ones were not repaired Akbar’s made of life on the   whole ceased to be that of a muslim and constancy approached to the Hindu idea od Dharma as modified by himself’’

لیکن عہد اکبری کی اس تصویر کو دیکھ کر ڈاکٹر غلام مصطفی خان نے حضرت مجدد رحمۃ اللہ علیہ کی  مشہور تصنیف '' اثبات النبوۃ ''  کے اردو ترجمے کے مقدمے میں پیش کی ہے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔انہوں نے عہد اکبری کا جو خاکہ پیش کیا ہے، اس کی چند جھلکیاں ملاحظہ ہوں۔ ''  ابوالفضل اور فیضی بلکہ ان کے باپ ملا مبارک کی وجہ سے  دین اور پھر نبوت پر اعتراضات شروع ہو چکے تھے اور بے دین مصنفین نے اپنی تصانیف سے نعت خارج کر دی تھی۔انہی ایام میں ابوالفضل نے حضرت مجدد الف ثانی رحمتہ اللہ علیہ کی موجودگی میں حضرت امام غزالی رحمتہ اللہ علیہ کو نامعقول کہا تھا اور آپ رحمۃ اللہ علیہ بے تاب ہو گئے تھے۔  نماز و روزہ اور شعائر اسلام کو '' تقلیدات '' یعنی عقل کے خلاف سمجھا گیا.  ابو الفضل کی نگرانی میں محل کے اندر عبادت کے لیے ایک آتش خانہ تیار ہوا۔ نصارٰی کی طرح ناقوس، صور تثلیث اور ان کی تعریفیں اکبر کا وظیفہ تھیں. برہما، مہادیو،بشن، کشن، مہامائ وغیرہ کی تعظیم کی جاتی۔  سورج کی عبادت دن میں چار مرتبہ کی جاتی۔  سورج کے ایک ہزار نام کی مالا جپی جاتی۔قشقہ لگایا جاتا۔آگ، پانی، درخت اور تمام مظاہر فطرت حتیٰ کہ گائے اور اس کے گوبر کی پوجا خود بادشاہ کرتا۔خنزیر کو (معاذاللہ) خدا کے حلول کا مظہر جانتا۔گائے کا گوشت حرام اور خنزیر اور شیر کا گوشت مباح قرار دیا۔ سود، شراب اور جواء حلال سمجھا گیا۔خود کو سجدہ کراتا تھا اور دیگر شعائر اسلام کی جو توہین کی گئی وہ حیطہ تحریر میں نہیں لا سکتا۔

بدایونی نے دین الہی کی تفصیل جو پیش کی ہے وہ یہ ہے:  اس دین میں شامل ہونے والوں کا کلمہ'' لا الہ الا اللہ اکبر خلیفۃ اللہ '' تھا,  جو لوگ اس دین میں باضابطہ داخل ہوتے ان کو مذکورہ بالا کلمہ کے ساتھ حسب ذیل عہد نامہ کا اقرار کرنا پڑتا تھا۔ '' من کہ فلاں ابن فلاں ہوں،  اپنی خواہش و رغبت اور دلی شوق کے ساتھ دین اسلام مجازی اور تقلیدی سے (جو باپ دادوں سے دیکھا اور سنا تھا) علیحدگی اور جدائی اختیار کرتا ہوں اور اکبر شاہی دین الٰہی میں داخل رہتا ہوں۔  اسلام کی ضد پر خنزیر اور کتے کے ناپاک ہونے کا مسئلہ منسوخ کیا تھا اور شاہی محل کے نیچے دونوں جانور زیارت کے لئے  رکھے گئے کہ ان کا دیکھنا بھی عبادت تھا، تناسخ  پر یقین کیا گیا اور عربی پڑھنا عیب سمجھا گیا۔  قرآن کو مخلوق، وحی کو محال، معراج اور شق القمر کو غلط کہا گیا۔ احمد، محمد جیسے نام تبدیل کیے جانے لگے۔  ہندو تو ہندو ہی تھے، ہندو مزاج مسلمان بھی حضور پر نور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت کے منکر ہوگئے۔  دین اسلام کے دشمنوں نے جب کبھی بھی اسلام کو سرنگوں کرنے کی مذموم کوششیں کی ہیں ان کا سب سے بڑا حربہ یہی رہا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ مسلمان کی وابستگی کو مضمحل کر دیا جائے۔  چنانچہ جہاں ہندوؤں نے شان رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں طعن و تشنیع  سے کام لینا شروع کر دیا وہاں بعض مسلمانوں نے ابوالفضل اور شیخ مبارک کے اثرسے نبوت  سے انکار کردیا اور کہا کہ توحید کے عقیدے کی موجودگی میں رسالت پر ایمان ضروری نہیں۔حضرت مجدد رحمتہ اللہ علیہ نے نبوت کی ضرورت و اہمیت پر ایک رسالہ '' اثبات النبوۃ '' تحریر فرمایا اور مضمحل اور ڈگمگاتے ہوئے ذہنوں کو از سر نو استحکام بخشا۔  حضرت مجدد رحمۃ اللہ علیہ کا ایک اور بڑا کارنامہ یہ ہے کہ آپ رحمتہ اللہ علیہ نے تصوف کو جس میں عجمی رنگ پیدا ہو چکا تھا  ،نکھار کر پیش کیا اور شریعت اور حقیقت کی اہمیت بیان فرمائی اور اس امر پر زور دیا کہ'' طریقت و حقیقت خادمان شریعت اند''  تاکہ مکاشفات اور مشاہدات اور وجدان و محویت  میں جو کیفیت و حلاوت  حاصل ہوتی ہے  اس کی تمام تر بنیاد شریعت پر ہو۔وہ نہ ہو کے محبت کی وادی میں سالک راہ شریعت  کے جادہ مستقیم سے بھٹک کر راہ ضلالت اختیار کر لے۔  اس سلسلے میں یہ ذکر بھی بے حد ضروری ہے کہ اس وقت تصوف کے تین سلاسل چشتیہ، قادریہ اور  سہروردیہ ہندوستان میں موجود تھے۔نقشبندیہ سلسلہ کو جو حضرت باقی باللہ رحمتہ اللہ علیہ ہندوستان میں لے کر آئے، اصل فروغ حضرت مجدد رحمۃ اللہ علیہ نے ہی دیا۔

اس سلسلے میں حضرت مجدد رحمۃ اللہ علیہ نے ایک اور بڑا کارنامہ یہ انجام دیا کہ  تصوف میں  '' وحدت الوجود'' نظریے کی بجائے '' وحدت الشہود'' کے نظریے کو پیش فرمایا جو سراپا جوش اور حرکت ہے تاکہ امت مسلمہ ایک فعال اور مؤثر کردار ادا کرسکے۔علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے خواجہ حسن نظامی رحمۃ اللہ علیہ کو ایک خط میں یہ الفاظ لکھے تھے: آپ کو یاد ہوگا کہ جب آپ نے مجھے سر الوصال  کا خطاب دیا تھا تو میں نے آپ کو کہا تھا کہ مجھے سر الفراق کہا جائے۔اس وقت بھی میرے ذہن میں یہی امتیاز تھا جو حضرت مجدد الف ثانی رحمتہ اللہ علیہ نے کیا ہے۔  حضرت مجدد رحمۃ اللہ علیہ کا ایک بہت بڑا کارنامہ یہ ہے کہ آپؒ نے ملی تشخص کو ابھارا۔ ہندوؤں کی تاریخ کے عمیق مطالعے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس قوم نے انتہائی مکاری سے بدھ دھرم، جین دھرم  اور پارسیوں کو اپنے اندر اس طرح جذب کر لیا تھا کہ ان کا نام و نشان تک باقی نہ رکھا۔  ان کی مذموم کوشش یہ تھی کہ مسلمانوں کو بھی اسی طرح اپنے اندر جذب کر لیا جائے۔ حضرت مجدد رحمتہ اللہ علیہ نے شعائر اسلامی کے سلسلے  میں انتہائی مثبت اقدام فرمایا۔قید و بند کی صعوبتیں جھیلیں اور اس وقت تک رہا ہونے سے انکار کر دیا جب تک شعائر اسلامی کو از سر نو بحال نہ کیا جائے  چنانچہ جہانگیر کو اس امر پر مجبور ہونا پڑا۔ اسی ملی تشخص کے ابھارنے سے'' دو قومی نظریہ'' کو جلا ملی جو ظہور پاکستان پر منتج ہوا۔  حضرت مجدد رحمۃ اللہ علیہ کا ایک گراں قدر کارنامہ یہ بھی ہے کہ آپ رحمتہ اللہ علیہ نے امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے نظام کو ازسرنو منظم کیا۔آپ رحمتہ اللہ علیہ نے امراء، رؤساء، حکام، سپہ سالاران، مجاہدین، علماء اور مشائخ کو تبلیغی خطوط لکھے۔آپ رحمتہ اللہ علیہ نے شہنشاہ وقت کو بیش قیمت مشورے دیے اور تبلیغی وفود کو اندرون ملک بھجوایا۔

حضرت مجدد رحمۃ اللہ علیہ کی ان تمام مساعی جمیلہ کا  اگر جائزہ لیا جائے تو یہ امرروز روشن کی طرح عیاں ہوجاتا ہے کہ آپؒ کے سامنے اقتدار،جاہ و حشمت، زر و مال  اور حصول سلطنت بالکل ہیچ تھے۔ورنہ جب جہانگیر کو قید کرلیا گیا تھا آپ رحمتہ اللہ علیہ  بڑی آسانی سے سلطنت پر قابض ہو سکتے تھے، آپ رحمتہ اللہ علیہ نے سپہ سالار کو لکھا کہ بادشاہ کی تعظیم و احترام حسبِ سابق  بجا لائیں اور یہ واضح کردیا کہ آپ رحمتہ اللہ علیہ کا مقصد توحید  اور مشن صرف یہی ہے کہ احیاء ِکلمۃ اللہ کا فریضہ بجا لایا جائے اور بس۔  آپ رحمتہ اللہ علیہ کے مکتوبات شریف کے مضامین اور وہ علوم و معارف اور اسرارورموز جو آپ رحمتہ اللہ علیہ نے اس میں بیان کئے ہیں کو دیکھ کر انسان حیران و ششدر  رہ جاتا ہے اور آپ رحمتہ اللہ علیہ کے تبحر ِعلمی  اور آپ رحمتہ اللہ علیہ کے مقاصد اعلیٰ کا اعتراف کئے بغیر نہیں رہ سکتا۔  ڈاکٹر غلام مصطفی خان آپ رحمتہ اللہ علیہ کی مساعی جمیلہ کے نتائج کو قلمبند کرتے ہوئے لکھتے ہیں:  ایسے حالات میں حضرت مجدد الف ثانی رحمتہ اللہ علیہ نے خان خاناں، صدر جہاں، خان اعظم، خان جہاں، مہابت خاں، تربیت خاں، اسلام خان، دریا خان، سکندر خان، مرتضیٰ خاں جیسے امراء  کو اپنے حلقہ ارادت و عقیدت  میں داخل کر کے بادشاہ کی توجہ دین کی طرف مبذول کرانے کی کوشش کی۔  بالآخر جہانگیر نہ صرف معتقد ہوا بلکہ اپنے بیٹے خرم کو حضرت رحمۃ اللہ علیہ سے بیعت کرایا۔  سجدہ تعظیمی موقوف ہوا،گائے کا ذبیحہ پھر شروع ہوا، جو مسجدیں منہدم ہوگئی تھیں وہ دوبارہ تعمیر ہوئیں  اور جس قدر خلاف شرح قوانین رائج تھے سب منسوخ ہوئے۔فن مصوری جو عہد جہانگیر میں بام عروج کو پہنچا ہوا تھا وہ فن تعمیر اور فن خطاطی کی طرف منتقل ہوا۔اورنگ زیب عالمگیر کے عہد میں فقہ کی سب سے بڑی کتاب فتاویٰ عالمگیری مرتب ہوئی۔دربار میں علماء اور فضلاء کو جگہ ملی پھر حضرت رحمتہ اللہ علیہ کے شاگردان سلسلہ میں شاہ ولی اللہ دہلوی رحمۃ اللہ علیہ، حضرت مظہر جان جاناں رحمتہ اللہ علیہ اور شاہ غلام علی رحمتہ اللہ علیہ جیسے بزرگوں نے دینی خدمات سرانجام دیں۔  آخر میں لکھتے ہیں کہ:

 دین سے متعلق جتنے مسائل 1001 ہجری سے آج تک کھڑے ہوئے ہیں اور آئندہ بھی دوسرے ہزارہ کے اختتام تک کھڑے ہوں گے ان سب کا حل صراحتاً یا کنایۃً مکتوبات شریف میں موجود ہے۔ اس سے بڑھ کر آپ رحمتہ اللہ علیہ کے مجدد الف ثانی رحمتہ اللہ علیہ ہو نے کا اور کیا ثبوت ہو سکتا ہے۔